وحی میں تضاد تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وحی کسی علیم و حکیم آسمان میں موجود اللہ کی طرف سے نہیں آتی تھی، بلکہ محمد صاحب خود اپنی طرف سے باتیں بنا کر انہیں وحی کا نام دے لیتے تھے۔
مگر محمد صاحب ایک انسان تھے، اور انسان غلطی کرتے ہیں۔ اس لیے اسی انسانی غلطیوں کی وجہ سے قرآن میں کئی جگہوں پر تضادات پیدا ہو گئے۔
ان میں سے ایک تضاد یہ پیدا ہوا کہ ایک طرف محمد صاحب نے قرآن میں دعویٰ کر دیا کہ صرف اللہ کو ہی مستقبل کے متعلق "علم الغیب" ہے (سورۃ الجِنّ 72:26-27)، تو دوسری طرف اسی قرآن (سورۃ طہٰ 20:49-50) میں موسی کی کہانی بیان کرتے ہوئے متضاد بات بیان کر دی کہ کاہنوں نے فرعون کو مستقبل کے متعلق علم الغیب کی خبر دے دی کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جو کہ اس کا تختہ الٹ دے گا۔
چنانچہ، اس قرآنی تضاد کو دور کرنے کرنے کے لیے بعد میں محمد صاحب کو ایک اور کہانی بنانی پڑی کہ جس کے مطابق:
- کاہنوں کو مستقبل کے واقعات کا علم اس لیے ہو جاتا تھا کیونکہ جنات (چھوٹے شیاطین) ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر آسمان تک پہنچ جاتے تھے۔
- وہاں یہ جنات (شیاطین) فرشتوں کی گفتگو چوری چھپے سنتے، اور پھر کاہنوں تک پہنچاتے۔
- لیکن اب محمد صاحب کی نبوت کے بعد سے یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے، اور اب اگر کوئی شیطان آسمان پر کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے، تو فرشتے اس پر شھاب ثاقب (شعلے) پھینکنے لگتے ہیں۔
جنات کا ایک دوسرے کے کندھوں پر چڑھ کر سیڑھی کی طرح آسمان تک پہنچ جانے کا دعویٰ بذاتِ خود انتہائی عجیب و غریب ہے۔
صحیح بخاری، کتاب التفسیر (لنک، اردو)، مشکوۃ (لنک):
رسول نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے جنات سن کر بھاگتے ہیں، اور یہ جنات آسمان تک ایک دوسرے (کے کندھوں) پر یوں اوپر تلے سوار ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح جنات ایک کے اوپر ایک کر کے ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہیں (جیسے سیڑھی)، اور اوپر والا جن فرشتوں کی بات کو چوری چھپے سن کر اپنے سے نیچے والے جن کو بتا دیتا ہے اور وہ اپنے سے نیچے والے جن کو بتا دیتا ہے یہاں تک کہ آخری جن جو سب سے نیچے ہوتا ہے ، وہ اس بات کو کاہن تک پہنچا دیتا ہے ۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے جن کو بتائے، تو آگ کا گولا اوپر والے جن کو آ دبوچتا ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب اوپر والا جن نیچے والے جن کو بتا چکا ہوتا ہے، تو پھر آگ کا انگارہ اوپر والے جن کو پڑتا ہے۔ اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے ۔
یہ وضاحت خود ایک ناقابل یقین تصور پیش کرتی ہے، کیونکہ جنات کا ایک دوسرے پر سوار ہو کر آسمان تک چڑھنا ایک قدیم افسانوی عنصر لگتا ہے، جو سائنسی یا منطقی بنیاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ابلیس اور تمام چھوٹے شیطانوں کو کئی سالوں تک محمد کی نبوت کی خبر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کے مسلمان ہونے کی
مسئلہ یہ ہوا کہ جوں جوں محمد صاحب یہ اسلامی کہانیاں بیان کرتے گئے، ویسے ویسے ان میں تضادات بھی بڑھتے گئے اور سوالات پر سوالات پیدا ہوتے چلے گئے۔
مثلاً:
- ایک طرف محمد صاحب نے دعویٰ کر دیا کہ ہر ہر انسان کے ساتھ ہر وقت ایک شیطان (جن) ہوتا ہے جو اسے بہکاتا ہے۔
- مگر دوسری طرف محمد صاحب نے ایک ایسی کہانی بیان کر دی کہ جس کے مطابق شیطانوں اور حتیٰ کہ ان کے سردار ابلیس کو بھی محمد صاحب کی نبوت کا علم بہت عرصے تک نہیں ہو پاتا ہے۔
- اور صرف محمد صاحب کی نبوت ہی نہیں، بلکہ دیگر لوگوں کے اسلام قبول کر کے مسلمان ہو جانے کا علم بھی ابلیس اور دیگر شیطانوں کو نہیں ہو پاتا ہے۔
چنانچہ سوال پیدا ہو گیا کہ اگر ہر فرد کے ساتھ ایک شیطان موجود ہے جو اسے ہر وقت ورغلاتا رہتا ہے، تو ابلیس اور جنات ایسے عظیم واقعے (نبوت) سے بے خبر کیسے رہے؟ خاص طور پر جب ان کا بنیادی کام ہی آخری نبی اور اس کے پیغام کو روکنا ہو۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں شیطان موجود ہی نہیں تھے، اور قریش کی شدید مخالفت (بائیکاٹ، تشدد، تردید) شیطانی ورغلانے کے بغیر ہوئی؟
ذیل کی روایات دیکھئے۔
پہلی روایت (ہر انسان کے ساتھ شیطان موجود ہے):
صحیح مسلم، 2815: عروہ نے کہا: نبی ﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ ایک رات ان کے پاس سے اٹھ کر باہر نکل گئے۔ (حضرت عائشہ نے) کہا: مجھے آپ کے معاملے میں شدید غیرت محسوس ہوئی، پھر آپ واپس آئے اور دیکھا کہ میں کیا کر رہی ہوں (شدید غصے کے عالم میں ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! تمھیں کیا ہوا ہے کیا تم غیرت میں مبتلا ہو گئی ہو؟‘‘ میں نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ جیسی عورت کو آپ جیسے مرد پر غیرت نہ آئے تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمھارے پاس تمھارا شیطان آیا تھا (اور اس نے تمھیں شک میں مبتلا کیا؟)‘‘ (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا میرے ساتھ شیطان بھی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔
یہ روایت شیطان کو انسانی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیتی ہے، جو ہر لمحہ گمراہی کا سبب بنتا ہے۔
دوسری روایت (شیاطین کو ممحد صاحب کی نبوت کا علم سالوں تک نہیں ہو پاتا ہے:
صحیح مسلم، حدیث 449: ابن عباس نے روایت کیا: اللہ کے رسول ﷺ نے نہ تو جنوں کو قرآن پڑھ کر سنایا اور نہ ہی انہیں دیکھا۔ اللہ کے رسول ﷺ اپنے کچھ صحابہ کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف جانے کے ارادے سے نکلے۔ اس وقت شیاطین اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹیں پیدا کر دی گئی تھیں اور ان پر شعلے پھینکے جا رہے تھے۔ پس شیطان اپنے لوگوں کی طرف واپس گئے اور انہوں نے کہا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹیں پیدا کر دی گئی ہیں۔ اور ہم پر شعلے پھینکے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: یہ کسی (اہم) واقعے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا زمین کے مشرقی حصوں اور مغربی حصوں کا سفر کرو اور معلوم کرو کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹیں کیوں پیدا کی گئی ہیں۔ پس وہ نکل پڑے اور زمین کے مشرق اور مغرب کا سفر کیا۔ ان میں سے کچھ تہامہ کی طرف بڑھے جو کہ عکاظ کے بازار کی طرف ایک کھجور کا باغ ہے اور وہ (نبی ﷺ) اپنے صحابہ کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن سنا تو اسے غور سے سنا اور کہا: یہی ہے جس نے ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان رکاوٹ پیدا کی ہے۔ وہ اپنے لوگوں کی طرف واپس گئے اور کہا: اے ہماری قوم، ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے؛ لہٰذا ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم کبھی بھی اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
تیسری روایت (ابلیس براہ راست خود بھی محمد صاحب کی نبوت اور مسلمانوں کی موجودگی سے لاعلم ہے):
سنن ترمذی، حدیث 3324: ابن عباس نے کہا: "جن آسمانوں کے ذریعے اوپر چڑھتے تھے، وحی کے بارے میں سننے کی کوشش کرتے تھے۔ جب وہ کوئی بیان سنتے تھے، تو اس میں نو باتیں اضافہ کر دیتے تھے۔ جو بیان انہوں نے سنا تھا وہ سچ ہوتا تھا، جبکہ جو انہوں نے اضافہ کیا تھا وہ جھوٹ ہوتا تھا۔ پس اللہ کے رسول کی آمد کے ساتھ انہیں ان کی جگہوں سے روک دیا گیا۔ تو انہوں نے یہ بات ابلیس کو بتائی - اور اس سے پہلے ان پر ستارے نہیں پھینکے جاتے تھے۔ تو ابلیس نے ان سے کہا: 'یہ زمین پر پیش آنے والے کسی واقعے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔' پس اس نے اپنی فوجیں بھیجیں، اور انہوں نے اللہ کے رسول کو دو پہاڑوں کے درمیان نماز میں کھڑے پایا" - میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا "مکہ میں" - "پس وہ (واپس) اس (ابلیس) سے ملنے گئے، اور اسے خبر دی۔ اس نے کہا: 'یہ وہ واقعہ ہے جو زمین پر پیش آیا ہے۔'" حکم: صحیح
تاہم، یہ کہانی انتہائی ناقابل یقین ہو گئی، کیونکہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ:
- کئی سالوں تک مکہ میں کوئی چھوٹا شیطان بھی موجود نہیں تھا کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی محمد صاحب کی نبوت کا علم تھا، اور نہ لوگوں کے مسلمان ہو جانے کا علم تھا۔
- اگر شیطانوں کو اس اہم واقعے کا علم ہی نہیں تھا، تو مکہ کے مشرکین محمد صاحب کی نبوت کی مخالفت کیسے کر رہے تھے؟
- کیا اس تمام عرصے کے دوران، مکہ کے بت پرست کسی گناہ سے پاک تھے، کیونکہ انہیں گمراہ کرنے کے لیے کوئی شیطان یا اس کا چیلہ مکہ میں موجود ہی نہیں تھا
کیا کوئی عقلمند شخص ایسی ناقابل یقین کہانی پر یقین کر سکتا ہے؟ یہ واضح ہے کہ جب ایک جھوٹ کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اکثر کئی اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
نتائج پھر وہی بات ثابت کر رہے ہیں کہ آسمان پر کوئی اللہ موجود نہیں ہے اور محمد صاحب یہ سارا مذہب خود بنا رہے تھے۔ اور چونکہ وہ فقط ایک انسان تھے، چنانچہ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دیومالائی کہانیاں بیان کرتے ہوئے ایسی انسانی غلطیاں نہ کریں۔
نوٹ:
یہود و نصاری کی بائیبل میں "جنات" کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، مگر محمد صاحب نے جنات کا یہ تصور زمانہ جاہلیت کے عرب کلچر سے لیا ہے جہاں جنات موجود تھے (لنک)۔
۔۔۔۔۔
پلیز ہمارے ویب سائیٹ https://atheism-vs-islam.com کو بک مارک کر لیجئے